حکومت کا لگژری اشیا کی درآمد سے پابندی ہٹانے اور مزید ٹیکس لگانے کا اعلان

پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ لگژری آئٹمز کی درآمد پر سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر ساتھ ہی ان پر مزید ٹیکس لگایا جائے گا۔

اسلام آباد میں جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا۔ کہ وزیر اعظم شہباز شریف بالکل بھی لگژری اشیا کو پاکستان میں آنے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں تھے۔

مفتاح اسماعيل

تاہم انہوں نے کہا کہ ’اب چونکہ آئی ایم ایف کی شرط ہے۔ تو ہم ایسی اشیا پر سے پابندی اٹھا رہے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے مزید وضحات کرتے ہوئے لگژری آئٹمز کے حوالے سے کہا کہ ’ہم لگژری آئٹمز پر ڈیوٹیز لگا رہے ہیں۔ یہ ڈیوٹی ان اشیا پر ہوں گی جو باہر سے ہی مکمل طور پر تیار حالت میں آتی ہیں۔‘

مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ اس کا مقصد یہ ہے۔ کہ ان اشیا کی درآمد کو مشکل بنا دیا جائے۔ تاکہ اگر کوئی خود آٹھ سے چھ کروڑ کی گاڑی کو 30 سے 40 کروڑ میں لانا چاہتا ہے تو لے آئے۔‘

’ہمارا مقصد لگژری اشیا کی درآمد کو کھولنا نہیں۔ بلکہ ہمارا مقصد آئی ایم ایف اور دیگر بین لاقوامی وعدوں کو پورا کرنا ہے۔ اگر کوئی درآمد کرنا چاہے تو اس صورت میں ہمیں زیادہ ڈیوٹی بھی مل جائے اور زیادہ اشیا بھی باہر سے نہ آئیں۔‘

مفتاح اسماعیل کی پريس کانفرنس

لگژری آئٹمز کے علاوہ تمباکو اور سگریٹ پر بھی مزید ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔

اس بارے میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ ’ریٹیل ٹیکس کی مد میں 42 ارب روپے حاصل ہونے کا تحمینہ تھا۔ مگر اسے لگانے میں مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔

اسماعیل نے کہا ہے کہ ’اگست کے مہینے میں دنیا بھر میں سب سے اچھی کارکردگی پاکستانی روپے کی رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ بھی سب سے اچھی رہی ہے۔‘

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’میں آپ کو خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ طویل مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ 29 اگست کو بورڈ میٹنگ طے ہو گئی ہے۔ جس میں پاکستان کے پروگرام پر بحث کی جائے گی۔‘

وفاقی وزیر  خزانہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب۔ متحدہ عرب امارات اور قطر نے۔ غیر ملکی ریزرو میں موجود فرق کو پورا کرنے کے لیے رقم دینے کا وعدہ کیا ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے نے بدھ کو کہا تھا کہ پاکستان کے لیے قرضے کے پرواگرام کی بحالی کے لیے غیرملکی ریزرو میں موجود چار ارب ڈالر کے فرق کو پورا کرنا ضروری ہے۔

اس حوالے سے مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ اس فرق کو ’ہمارے دوست ممالک سعودی عرب۔ متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرف سے چار ارب ڈالرز ک۔ی فنڈنگ‘ سے پورا کر لیا گیا ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.