سریندرن پٹیل: امریکی جج جنھوں نے بچپن میں فاقوں سے بچنے کے لیے مزدوری بھی کی

جج
سریندرن پٹیل

گذشتہ ہفتے جب انڈین نژاد وکیل سریندرن پٹیل نے ایک امریکی عدالت میں بطور ڈسٹرکٹ جج حلف اٹھایا تو اس عہدے تک پہنچنے کے لیے ان کے متاثر کن سفر نے خبروں میں جگہ بنائی۔

بی بی سی ہندی کے عمران قریشی ایک ایسے شخص کی زندگی کی داستان سنا رہے ہیں جو ایک زمانے میں انڈیا میں ہاتھ سے بنے ہوئے سگریٹ تیار کرتا تھا لیکن آج امریکہ کی ایک عدالت میں انصاف فراہم کرتا ہے۔

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے سریندرن پٹیل کو امریکی ریاست ٹیکساس کی فورٹ بینڈ کاؤنٹی میں جوڈیشل ڈسٹرکٹ کورٹ میں جج تعینات کیا گیا ہے۔

انھوں نے امریکی شہریت حاصل کرنے کے پانچ سال بعد رواں سال پانچ جنوری کو اس عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب محنت اور عزم کا نتیجہ ہے۔‘

لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’میری زندگی کے ہر موڑ پر بہت سے لوگوں نے میری مدد کی، میرا ساتھ دیا۔‘

فاقوں سے بچنے کے لیے مزدوری

سریندرن پٹیل کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا۔ ان کے والدین دیہاڑی دار مزدور تھے جو چھ بچوں کا پیٹ بمشکل پال سکتے تھے۔

کم عمری میں ہی سریندرن پٹیل کو اس غربت کی وجہ سے خود کام کرنا پڑا۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ بیڑی تیار کرتے تھے، جو پتوں میں تمباکو ڈال کر بنایا جانے والا ایک روایتی اور مقامی سگریٹ ہوتا ہے تاکہ ’ہم تین وقت کا کھانا کھا سکیں۔‘

’میری بڑی بہن اور میں رات کو دیر تک بیٹھ کر یہ کام کرتے تھے۔‘

انھوں نے اس وقت سکول بھی چھوڑ دیا جب امتحان میں ان کے نمبر اچھے نہیں آئے۔ انھوں نے اپنی غربت کو تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا تھا جب ان کی بڑی بہن کی وفات ہوئی جن کی ایک 15 ماہ کی بیٹی تھی۔

انھوں نے اس واقعے کی زیادہ تفصیلات تو نہیں بتائیں لیکن بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ یہ خودکشی کا کیس ہے لیکن مجھے ہمیشہ لگا کہ اس معاملے میں انصاف نہیں ہوا۔‘

اس واقعے نے ان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی زندگی کا از سر نو تعین کریں۔ انھوں نے ایک بار سکول میں داخلہ لیا اور اس بار ڈٹ کر پڑھائی کی۔

امتحان میں بیٹھنے سے منع کیا

کالج سے پہلے کے دو سال میں ان کو اکثر کلاس اس لیے چھوڑنی پڑتی تھی کیوں کہ وہ روزی کے لیے کام بھی کرتے تھے۔

جب کم حاضری کی وجہ سے سکول نے ان کو امتحان میں بیٹھنے سے منع کیا تو انھوں نے اپنے اساتذہ سے درخواست کی لیکن وجہ نہیں بتائی۔

’میں ان کو یہ نہیں بتانا چاہتا تھا کہ میں معاشی حالت کی وجہ سے کلاس چھوڑتا تھا کیونکہ مجھے کسی کی ہمدردی نہیں چاہیے تھی۔‘

ان کے اساتذہ نے ان کو ایک موقع دیا جب ان کو سریندرن کے دوستوں سے اصل وجہ کے بارے میں علم ہوا۔

جب امتحان کا نتیجہ آیا تو سریندرن نے سب کو حیران کر دیا۔ وہ کلاس میں دوسرے نمبر پر تھے۔

مشکل وقت میں مدد کرنے والے

تاہم ان کی معاشی حالت ان کے لیے ایک رکاوٹ تھی۔ لیکن چند لوگوں نے ان کی مدد کی۔

ان میں سے ایک اتپ تھے، جن کا پورا نام سریندرن نے نہیں ظاہر کیا، جو کیرالہ میں ایک ہوٹل کے مالک تھے۔

’میں نے ان سے کہا کہ اگر انھوں نے مجھے نوکری نہیں دی۔ تو مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑے گی۔ انھوں نے مجھے رکھ لیا۔‘

یہ تعلق مسٹر اتپ کی موت تک جاری رہا۔

سریندرن بتاتے ہیں کہ جب وہ امریکہ میں جج بنے تو مسٹر اتپ کے بھائی نے ان کو فون بھی کیا۔

1992 میں سریندرن پٹیل نے پولیٹیکل سائنس کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ قانون کے طالب علم بن گئے۔

چار سال بعد ان کو کیرالہ کے وکیل اپوکتن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

اپوکتن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اتنا پرجوش تھا کہ مجھے۔ اس پر اعتماد ہوا۔ میں نے تمام سول کیس اس کے حوالے کر دیے کیوں کہ اس میں ان سے نمٹنے کی صلاحیت تھی۔‘

اہلیہ کے لیے وکالت ترک کرنا

سریندرن پٹیل ایک دہائی تک یہاں کام کرتے رہے جس کے بعد ان کی بیوہ شبھا کو دلی کے ایک ہسپتال میں نوکری مل گئی۔

انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنی بیوی۔ کے ساتھ دلی جائیں کیوں کہ ’میں اس کے کیریئر میں رکاوٹ۔ نہیں بننا چاہتا تھا۔‘

دلی میں سریندرن نے سپریم ۔کورٹ کے ایک وکیل کے ساتھ کام شروع کیا۔ لیکن چند ہی ماہ بعد ان کی بیوی کو امریکہ منتقل ہونے کا موقع مل گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اگرچہ میں اپنا پیشہ چھوڑ کر خوش نہیں تھا۔ لیکن میں اپنی بیوی کے ساتھ چلا گیا۔ اس کے بغیر میں اس مقام پر نہیں ہوتا جہاں میں آج ہوں۔‘

سریندرن جج

2007 میں دونوں امریکہ کی ریاست ٹیکساس منتقل ہوئے جہاں پہلے پہل سریندرن نے ایک مقامی سٹور پر نوکری کی۔ پھر ان کو احساس ہوا کہ وہ ٹیکساس میں بھی بار کا امتحان دے سکتے ہیں۔

اس کے بعد انھوں نے بین الاقوامی قانون میں بھی ڈگری حاصل کر لی۔

امریکہ میں ناخوشگوار لمحات اور کامیابی

جب انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم ۔سے جج کے عہدے کے لیے الیکشن لڑنے ۔کا سوچا تو چند ناخوشگوار تجربات کا بھی سامنا ہوا۔ ان کو اپنی مہم کے دوران اپنے انڈین۔ لہجے کی وجہ سے مزاق کا سامنا کرنا پڑا۔

’لیکن میں اس سے متاثر نہیں ہوا۔ انتخابی مہم میں ایسا ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس بات سے فرق نہیں۔ پڑتا کہ آپ یہاں کب سے رہ رہے ہیں۔ بلکہ اہم بات یہ ہے کہ آپ نے کمیونٹی کے لیے کیا کیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ان کی زندگی کا سفر بہترین رہا ہے۔ ’میں 2017 میں امریکی شہری بنا اور 2022میں الیکشن جیت چکا ہوں۔ میرا نہیں خیال۔ کہ دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔‘

ان کی یہ جیت ایک اور وجہ سے بھی خاص ہے۔

ٹیکساس میں پریکٹس کے۔ دوران سریندرن پٹیل ایک سینئر وکیل گلینڈن ایڈمز سے بہت قریب ہو چکے تھے۔ جب گلینڈن کا انتقال ہوا تو ان کی اہلیہ روزلی نے سریندرن سے تابوت اٹھانے والوں میں شامل ہونے کی درخواست کی۔

اور جب انھوں نے اپنے نئے عہدے کا آغاز کیا۔ تو یہ روزلی ہی تھیں ’جنھوں نے میرے کورٹ روم میں جج کا چوغا پہنایا۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.