ملک احمد کے مطابق اس سال ان کی گندم کی پیداوار تقریباً 25 سے 30 فیصد کم رہی۔ اُنھوں نے بتایا کہ علاقے کے تقریباً ہر زمیندار اور کاشتکار کو اس سال گندم کی پیداوار میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے محمود نواز شاہ نے اس موسم میں سندھ میں گندم کی کم پیداوار کے بارے میں بتایا۔ ان کا کہنا ہے کہ گندم کی پیداوار گذشتہ سال کے مقابلے میں کم ہوئی، جس کی کئی وجوہات ہیں۔
پاکستان میں پنجاب اور سندھ گندم پیدا کرنے والے دو بڑے صوبے ہیں اور ملک میں گندم کی ضرورت پورا کرنے کے لیے ان دونوں صوبوں کی پیداوار پر انحصار کیا جاتا ہے۔
تاہم موجودہ موسم میں گندم کی کم پیداوار کی وجہ سے پاکستان کی وفاقی حکومت نے 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں وفاقی کابینہ نے منظوری بھی دے دی ہے۔ ملک میں گندم کی کٹائی تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گذشتہ دو برسوں سے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے تاکہ ملک میں گندم کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جُزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطاً 124 کلوگرام گندم سالانہ کھا لیتا ہے۔
ملک کو گندم کی درآمد ایک ایسے وقت میں کرنی پڑ رہی ہے جب دنیا میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے گندم کی عالمی قیمتیں اپنی بلند ترین سطح پر موجود ہیں کیونکہ دنیا میں گندم سپلائی کرنے والے دونوں بڑے ملک یوکرین اور روس ہی ہیں۔
پاکستان کو درآمدی گندم اس لیے بھی مہنگی پڑ سکتی ہے کہ ایک طرف ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر نیچے کی طرف گامزن ہیں تو دوسری جانب پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں گرتی ہوئی قیمت درآمدی گندم کو پاکستانیوں کے لیے مزید مہنگا کر دے گی۔
گندم کے شعبے سے وابستہ افراد اور ماہرین کے مطابق اگر گندم کی بلند قیمت اور روپے کی کم قیمت برقرار رہی تو درآمدی گندم پاکستانیوں کے لیے آٹے کی قیمت کو مزید بڑھا دے گی جو ملک میں پہلے سے موجود مہنگائی کی بلند سطح کو اوپر کی جانب دھکیل دے گی۔
پاکستان میں اس سال گندم کی پیداوار کی کیا صورتحال رہی؟
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت حال ہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں ملک میں گندم کی پیداوار، موجودہ ذخائر اور صوبائی و قومی سطح پر کھپت کے حوالے سے بتایا گیا۔
رواں سال گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف دو کروڑ 29 لاکھ میٹرک ٹن لگایا گیا تھا جبکہ متوقع پیدوار دو کروڑ 26 لاکھ میٹرک ٹن تک ہو گی۔ گندم کی ملکی سطح پر مجموعی کھپت کا تخمینہ تین کروڑ میٹرک ٹن لگایا گیا ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ گندم کی حکومتی سطح پر خریداری کے حوالے سے پنجاب نے 91.66 فیصد، سندھ نے 49.68 فیصد، بلوچستان نے 15.29 فیصد جبکہ پاسکو نے 100 فیصد ہدف حاصل کر لیا ہے۔
مقامی ضرورت کے مقابلے میں گندم کی کم پیداوار کی وجہ سے وفاقی کابینہ نے ملک میں 30 لاکھ گندم کی درآمد کی منظوری دی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس ملک میں دو کروڑ 28 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوئی تھی تاہم یہ پیداوار بھی ملکی ضرورت سے کم تھی اس لیے پاکستان نے 20 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک سے منگوائی تھی
گندم کی کم پیداوار کی کیا وجوہات ہیں؟
وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں طے پایا گیا کہ گندم کی پیداوار کے ہدف اور پیداوار میں فرق کی وجوہات میں گندم کی کاشت میں کمی، پانی کی قلت اور گذشتہ حکومت کی کھاد کی فراہمی میں بد انتظامی کی وجہ ہیں۔
مزید یہ کہ مارچ میں گندم کی امدادی قیمت کے دیر سے اعلان کی وجہ سے کسانوں کی گندم کی کاشت میں 2 فیصد کمی کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا۔ اس کے علاوہ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی یعنی وقت سے پہلے گرمی کی شدت میں اضافہ بھی گندم کے طے شدہ ہدف کے حصول میں بڑی رکاوٹ رہے۔
زمیندار ملک احمد خان نے بتایا کہ مارچ کے مہینے میں گندم کی فصل کو تقریباً 25 سے 30 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ گندم کے دانے کی نمو بھی ہوتی رہے اور وہ پکتا بھی رہے تاہم اس سال مارچ کے مہینے میں درجہ حرارت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ 30 سے اوپر جا کر 35 اور 38 سینٹی گریڈ تک چلا گیا۔
اس سے گندم کی فصل تو جلدی پک گئی لیکن دانے کی نمو نہیں ہوئی اور وہ چھوٹا رہ گیا جس کی وجہ سے کم پیداوار ہوئی۔
ماہر اجناس شمس الاسلام نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ موسمیاتی حالات کے علاوہ حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت میں تاخیر بھی کم پیداوار کا باعث بنی۔ اُنھوں نے کہا کہ امدادی قیمت کا اعلان فصل کی بوائی سے پہلے کیا جاتا ہے تاکہ کسان کو اس میں فائدہ نظر آئے تو وہ زیادہ رقبے پر اس کی کاشت کرے۔
گذشتہ حکومت نے 2200 روپے فی من کی امدادی قیمت کا اعلان تاخیر سے کیا جس کی وجہ سے زیادہ پیداوارکا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اُنھوں نے کہا اسی طرح کھاد کا بحران بھی ایک وجہ رہا جب کھاد کی زیادہ قیمتوں اور اس کی کمیابی کی وجہ سے مناسب طور پر فصل کو کھاد نہیں دی جا سکی۔
عارف حبیب لمیٹڈ پر اجناس کے امور کے ماہر احسن محنتی نے بتایا کہ گندم کی کم پیداوار کی وجہ یہ بھی رہی کہ اب پاکستان میں گنے اور کپاس کی فصل کو زیادہ کاشت کیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان فصلوں سے زرعی طبقے کو زیادہ مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
سندھ آباد گار فورم کے وائس چیئرمین محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے گذشتہ دو سال سے کہہ رہے ہیں کہ وہ گندم پر کوئی واضح پالیسی بنائے کیونکہ گندم پاکستان کے غذائی تحفظ کے لیے لازمی ہے تاہم زرعی شعبے کی جانب سے کی جانے والی سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا۔
پاکستان کیا مہنگی گندم درآمد کر پائے گا؟
پاکستان کو اس سال ایک ایسے وقت میں گندم درآمد کرنا پڑے گی جب دنیا میں گندم کی قیمتیں بلند ترین سطح پر موجود ہیں۔ اس وقت ایک ٹن گندم کی قیمت عالمی منڈی میں 425 ڈالر کی سطح پر موجود ہیں اور اس میں ترسیل کے اخراجات شامل کرنے سے اس کی پاکستان میں درآمدی قیمت 450 ڈالر فی ٹن تک پڑے گی۔
پاکستان میں حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت 2200 روپے فی من مقرر کی گئی تھی تاہم درآمدی گندم پاکستان کو 3000 روپے فی من سے زائد میں پڑے گی۔
پاکستان میں اس وقت روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 190 روپے کی حد بھی عبور کر چکی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے پاس اس وقت ڈالرز کی شدید کمی ہے جو کہ درآمدات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے درکار غیر ملکی کرنسی ہے۔
اس وقت مرکزی بینک کے پاس 10 ارب ڈالر کے قریب زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جو ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔ دوسری جانب آئی ایم ایف اور دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کو مطلوبہ مالی معاونت کا اعلان ابھی تک نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے بیرونی ادائگیوں کا شعبہ اس وقت زبردست دباؤ کا شکار ہے۔ ایسی صورتحال میں گندم کی درآمد پر خرچ ہونے والے ڈالر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو متاثر کریں گے۔
محکمہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے اس سال کے پہلے نو ماہ میں 80 کروڑ ڈالر کی گندم درآمد کی۔
احسن محنتی نے اس سلسلے میں بتایا کہ عالمی منڈی میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے یہ درآمدی بل ایک ارب ڈالر کی حد سے اوپر جا سکتا ہے۔
شمس الاسلام نے کہا اس وقت یوکرین اور روس کی جنگ کی وجہ سے عالمی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور پاکستان کو مہنگی گندم دستیاب ہو گی۔ اُنھوں نے کہا پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا سے ہمیں سستی گندم مل سکتی ہے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی وجہ سے ہمیں دوسرے ممالک سے یہ گندم لینا پڑتی ہے۔
دنیا میں گندم کی پیداوار کے بڑے ملکوں میں روس اور یوکرین شامل ہیں اور دنیا میں برآمد کی جانے والی گندم کا دو تہائی فیصد ان ملکوں سے عالمی منڈی میں پہنچتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور پھر جنگ کی وجہ سے گذشتہ کئی مہینوں سے گندم کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ موجودہ سال کے شروع میں عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت مستقبل کے سودوں میں 365 ڈالر فی ٹن کے حساب سے دستیاب تھی جو اب 425 ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
محمود نواز شاہ نے کہا کہ حکومت کی اس سلسلے میں پالیسی بڑی عجیب ہے کہ اگر وہ دو چار ارب امدادی قیمت کے نام پر زرعی شعبے کو دے تو گندم کی زیادہ پیداوار حاصل ہو سکتی تھی جس سے گندم کی درآمد پر ملک کے خرچ ہونے والے کروڑوں ڈالر کو بچایا جا سکتا تھا۔
کیا آٹے کی قیمت مزید بڑھے گی؟
موجودہ حکومت کی جانب سے عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تاہم یہ سہولت یوٹیلٹی سٹورز پر دستیاب ہو گی۔
ملک میں اس وقت عام بازاروں میں آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو، فائن آٹا 75 سے 80 روپے فی کلو اور چھوٹی چکیوں پر بکنے والا آٹا 80 روپے فی کلو میں دستیاب ہے
شمس الاسلام نے بتایا کہ اس وقت 52 سے 53 روپے فی کلو کے حساب سے گندم فلور ملز کو دی جا رہی ہے۔
فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین عبد الرؤف مختار نے بتایا کہ اس وقت مقامی گندم 2300 سے 2350 روپے فی من کے حساب سے دستیاب ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سیزن میں بھی گندم مہنگی ہوئی ہے جس کا اثر آٹے کی قیمت پر پڑ رہا ہے۔ جب درآمدی گندم زیادہ مہنگے دام ملک میں پہنچے گی تو اس پر حکومت سبسڈی تو دے گی تاہم پھر بھی قیمت بڑھنے کا امکان ہے۔
ماہر اجناس شمس الاسلام نے بتایا کہ درآمدی گندم کی وجہ سے ملک میں آٹے کی قیمت بڑھنے کا بہت زیادہ امکان موجود ہے۔
اُنھوں نے کہا اگرچہ حکومت یہ گندم درآمد کرے گی اور اسے رعایتی نرخوں پر فلور ملز کو دے گی تاہم درآمدی گندم سے پہلے مقامی گندم کی ذخیرہ اندوزی شروع ہو جاتی ہے جو پہلے بھی دیکھا گیا اور اس کی قیمت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’حکومت 1950 روپے فی من کے حساب سے فلور ملز کو گندم دے رہی ہے جس کی فی کلو لاگت 49 روپے تک آتی ہے اور اس میں فلور ملز کے اخراجات اور ٹرانسپورٹیشن بھی شامل کر دی جائے تو آٹے کی قیمت زیادہ سے زیادہ 55 روپے فی کلو ہونی چاہیے تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا اور آٹے کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘