خواتین کے ساتھ رات گزارنے اور انھیں ’حاملہ‘ کرنے کی نوکری: سینکڑوں مرد پیسے اور سیکس کے لالچ میں آ کر کیسے لُٹے؟

یہ ایک کافی منفرد فراڈ ہے۔

دسمبر کے اوائل میں منگیش کمار (فرضی نام) فیس بُک استعمال کر رہے تھے جب اُن کے سامنے ’آل انڈیا پریگننٹ جاب سروس‘ کی ایک ویڈیو آئی۔ تجسس کے شکار منگیش نے ویڈیو پر کلک کیا اور اس دیکھا۔

اس ویڈیو میں ملازمت کی پیشکش کی گئی. اور یہ سننے میں اتنی زبردست ملازمت تھی کہ اس پر یقین کرنا مشکل تھا اور پیسے بھی بہت مل رہے تھے۔ اور کام یہ تھا کہ بس خواتین کو حاملہ کرنا ہے۔

یقیناً اس پر یقین نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر 33 سال کے منگیش شادی میں ڈیکوریشن سروس فراہم کرنے والی جس کمپنی میں کام کرتے تھے. وہاں سے انھیں فقط 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ہی ملتی تھی۔

مگر خواتین کو حاملہ کرنے کی نوکری کے حصول کے چکر میں وہ اب تک دھوکے بازوں کے ہاتھوں 16 ہزار روپے گنوا چکے ہیں. اور وہ ابھی بھی فراڈ کرنے والے اُن سے مزید پیسے مانگ رہے ہیں۔

انڈیا کی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے منگیش واحد شخص نہیں ہیں. جو اس دھوکے یا فراڈ کے نشانہ بنے ہوں۔

بہار میں سائبر سیل کے سربراہ ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ پولیس کلیان آنند نے بی بی سی کو بتایا. کہ سینکڑوں کی تعداد میں بھولے مرد اس بڑے فراڈ کا نشانہ بنے ہیں اور ان مردوں سے بے اولاد خواتین کے ساتھ ایک رات ہوٹل میں گزارنے اور انھیں حاملہ کرنے. کے عوض بڑی بڑی رقوم دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

نو موبائل فونز اور ایک پرنٹر

پولیس نے ابھی تک اس فراڈ میں ملوث آٹھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے. جن کے قبضے سے نو موبائل فونز اور ایک پرنٹر ملا ہے جبکہ 18 دیگر ملزمان کی تلاش جاری ہے۔

لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس فراڈ کا نشانہ بننے والوں کو ڈھونڈنے میں مشکل ہو رہی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ گروہ گذشتہ ایک سال سے متحرک ہے. اور ہمارا ماننا ہے کہ انھوں نے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے لیکن ممکنہ طور پر شرمندگی کی وجہ سے فراڈ کا نشانہ بننے والے سامنے نہیں آ رہے ہیں۔‘

بی بی سی نے اس فراڈ کے دو متاثرین سے بات کی ہے۔

منگیش سے میں نے متعدد فون کالز کے ذریعے بات کی اور وہ اس بارے میں کافی کُھل کر بات کرتے ہیں اور انھوں نے تفصیل میں بتایا کہ وہ اس دھوکے میں کیسے پھنسے۔

انھوں نے مجھے بتایا ’فیس بُک پر ویڈیو دیکھنے کے دس منٹ بعد میرا فون بجنے لگا۔ ایک شخص نے مجھے کہا کہ اگر میں ملازمت کے لیے رجسٹر کرنا چاہتا ہو تو مجھے ابتدا میں 799 روپے دینے ہوں گے۔‘

جعلی دستاویز
،منگیش کو جو جعلی عدالتی دستاویز دی گئی اس کے آخر میں کیے گئے دستخط امریکی ٹاک شو کی مشہور میزبان اوپرا ونفری کے دستخط جیسے ہیں

کال کرنے والے شخص کو منگیش ’سندیپ سر‘ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے. کہ کالر نے انھیں بتایا کہ ملازمت کے لیے رجسٹر ہونے کے بعد وہ ممبئی کی ایک کمپنی کے لیے کام کریں گے اور انھیں ایک عورت کی تفصیلات بھیجی جائیں گی جسے انھیں حاملہ کرنا ہو گا۔

پانچ لاکھ روپے

فون کرنے والے نے صرف ایک عورت کے ساتھ سیکس کرنے کے عوض منگیش کو پانچ لاکھ روپے کی پیشکش کی۔ یہ رقم اتنی بڑی تھی جو منگنیش ڈیکوریشن کمپنی میں کام کر کے تین سال میں کما پاتے۔

فون کرنے والے نے انھیں مزید بتایا کہ خاتون کے کامیابی سے حاملہ ہونے کی صورت میں منگیش کو مزید آٹھ لاکھ روپے دیے جائیں گے۔

منگیش شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کے باپ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں غریب انسان ہوں، مجھے پیسوں کو ضرورت تھی چنانچہ میں نے اُن پر یقین کر لیا۔‘

اگلے چند ہفتوں میں منگیش کو مزید 16 ہزار روپے ان دھوکے بازوں کو دینے پڑے۔ انھوں نے 2550 روپے کسی عدالتی کاغذات کی تیاری کے لیے دیے، ان سے 4500 روپے سیفٹی ڈیپازٹ کا کہہ کر لیے گئے. اور ان کو ملنے والے پیسوں پر لگنے والے جی ایس ٹی کی مد میں ان سے 7998 روپے علیحدہ لیے گئے۔

عدالتی کاغذات

انھوں نے جعلی عدالتی کاغذات سمیت ساری رسیدیں بی بی سی کو دکھائیں۔ سرکاری کاغذ کی طرح کے دکھنے والے دستاویز پر منگیش کا نام اور ان کی تصویر تھی۔ اس کے عنوان میں لکھا ہوا تھا ’بیبی برتھ ایگریمنٹ‘ یعنی بچے کی پیدائش کا معاہدہ اور نیچے لکھا تھا ’پریگننسی ویریفیکیشن فارم‘ یعنی حمل کا تصدیق کا فارم۔

اس دستاویز کے آخر میں کیے گئے دستخط امریکی ٹاک شو کی مشہور میزبان اوپرا ونفری کے دستخط جیسے ہیں۔

اس سب کارروائی کے دوران ’سات سے آٹھ‘ خواتین کی تصویریں بھیج کر دھوکے بازوں نے منگنیش کی اس معاملے میں دلچسپی کو برقرار رکھا۔ وہ اُن سے پوچھتے تھے کہ وہ ان خواتین میں سے کس کو حاملہ کرنا پسند کریں گے۔

منگیش نے بتایا ’انھوں نے کہا کہ جس علاقے میں میں رہتا ہوں وہ وہاں ایک ہوٹل کا کمرہ بک کرائیں گے اور وہاں میری ایک خاتون سے ملاقات ہو گی۔‘

جب منگیش نے اُن سے کیے گئے پیسوں کے وعدے کے بارے میں پوچھا تو انھیں ایک رسید دکھائی گئی. اور کہا گیا کہ 512400 روپے ان کے اکاؤنٹ میں بھیج دیے گئے ہیں لیکن انھیں وصول کرنے کے لیے. انھیں 12600 روپے انکم ٹیکس دینا ہو گا۔

منگیش کہتے ہیں کہ اس وقت تک وہ اپنے پورے مہینے کی تنخواہ فراڈ کرنے والوں کو دے چکے تھے چنانچہ انھوں نے دھوکہ بازوں کو کہہ دیا کہ وہ مزید پیسے نہیں دے سکتے. اور بس اب انھیں ری فنڈ چاہیے۔

بینک اکاؤنٹ

’لیکن سندیپ سر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور جب میں برہم ہوا تو انھوں نے مجھے کہا کہ کیونکہ میرا بینک اکاؤنٹ پانچ لاکھ روپے کا کریڈٹ دکھا رہا ہے اس لیے انکم ٹیکس کا محکمہ میرے گھر پر چھاپہ مار کر مجھے گرفتار کر لے گا۔‘

منگیش نے مزید کہا کہ ’میں ایک غریب مزدور ہوں، میں نے ایک مہینے کی تنخواہ گنوا دی اور میں اپنے آپ کو کسی فوجداری مقدمے میں نہیں پھنسانا چاہ رہا تھا۔ میں اتنے خوف میں تھا کہ میں نے .10 دنوں کے لیے اپنا فون بند کر دیا تھا۔ میں نے کچھ دن قبل ہی اسے واپس چلایا ہے۔‘

انھوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ جب میں (بی بی سی) نے ان سے اس تحریر کے لیے رابطہ کیا تو ابتدا میں انھیں لگا کہ میں بھی اس فراڈ کرنے والے گروہ کی حصہ ہوں۔

فراڈ

ڈی ایس پی آنند کا کہنا ہے کہ اس فراڈ کے پیچھے افراد پڑھے لکھے ہیں جن میں سے کچھ تو گریجوئیٹ بھی ہیں اور انھیں موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور پرنٹر استعمال کرنے آتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پورے ملک میں پھیلے ان کے زیادہ تر متاثرین کم پڑھے لکھے اور غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

منگیش کا کہنا ہے کہ انھیں نہیں لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے کیونکہ ’سندیپ سر‘ نے انھیں اپنے شناختی کارڈ کی کاپی بھیجی تھی، جبکہ ایک تصویر بھی جس سے ظاہر ہو رہا تھا. کہ وہ انڈین آرمی کے سپاہی تھے۔ اور انھیں لگا کہ کال کرنے والے کی واٹس ایپ پر ڈسپلے پکچر بھی حقیقی تھی جس میں ایک خوبصورت بیرون. ملک کی خاتون نے نومولود بچے کو اٹھایا ہوا تھا۔

انھوں نے پوچھا ’آپ مجھے بتائیں. کہ آپ اس تصویر پر کیسے بھروسہ نہیں کر سکتے؟‘

ملزمان کی تصویر، ان کا منہ چھپا ہوا ہے
،پولیس نے اس معاملے میں ملوث آٹھ ملزمان کو گرفتار کیا ہے جبکہ 18 دیگر ملزمان کی تلاش جاری ہے

سائبر قانون کے ماہر پون ڈوگل سمجھاتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا میں ’لوگ بہت زیادہ اعتبار کر لیتے ہیں اور شاذ ہی انٹرنیٹ پر آنے والی معلومات کی آزادانہ تصدیق کرتے ہیں۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ اس فراڈ کا طریقہ کافی انوکھا ہے۔

مفت پیسے

’دھوکہ دہی کرنے والوں نے انھیں مفت پیسے اور فری سیکس کے وعدے کے ساتھ لالچ دیا، جو کہ ایک مہلک امتزاج ہے۔ اس طرح کے حالات میں اکثر سمجھداری سے کام نہیں لیا جاتا۔‘

پون ڈوگل کہتے ہیں کہ کورونا کے وبا کے دوران. فون اور نیٹ بینکنگ عام ہو گئی. اور اس کے ساتھ ’سائبر کرائم کے سنہری دور کا آغاز ہوا۔‘ وہ انتباہ کرتے ہیں کہ ’یہ آئندہ کئی دہائیوں تک جاری رہے گا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ سائبر کریمینل دھوکہ دینے. کے نئے سے نئے طریقے سامنے لے کر آئیں گے. اور انڈیا کو منگیش جیسے لوگوں کو بچانے کے لیے مزید محنت کرنا ہو گی۔

’کیونکہ لوگوں کا حکومت پر اعتماد ہے، حکومت کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے مزید کام کرنا ہوگا۔‘

لیکن حکومت اکیلے یہ پیغام انڈیا کے 1.4 ارب لوگوں تک نہیں پہنچا سکتی۔

وہ کہتے ہیں ’یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ اور صرف حکومت پر انحصار کرنے. میں بہت وقت لگ جائے گا۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے. کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کو آگے بڑھنے کے لیے مراعات دے۔‘

دوسری جانب فراڈ کرنے والوں نے منگیش سے رابطہ کرنا ابھی بھی نہیں چھوڑا۔

کال

گذشتہ ہفتے میرے ساتھ بات کرتے ہوئے انھوں نے کال یہ کہہ کر ختم کر دی. کہ ’میڈم‘ کال کر رہی تھیں۔ انھوں نے بعد میں بتایا کہ یہ وہ میڈم ہیں. جن کے ساتھ ان کو ملوانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔‘

اتوار کی رات کو انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ تقریباً ہر روز اُن سے بات کرتے ہیں۔

وہ اب منگیش کو بتا رہی ہیں کہ ’سندیپ سر‘ اصلی دھوکے باز ہیں. اور ان سے جو پانچ لاکھ روپے وعدہ کیے گئے تھے ان میں سے زیادہ تر پیسے ’سندیپ سر‘ نے چوری کر لیے ہیں. لیکن منگیش کو ابھی بھی 90 ہزار روپے مل سکتے ہیں اگر وہ جی ایس ٹی کی مد میں تین ہزار روپے دیں!

انھوں نے مجھے بتایا ’میں نے انھیں بتایا کہ میں کنگال ہو گیا ہوں۔ میں نے اُن سے میری رقم واپس کرنے. کی التجا کی لیکن انھوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہو گا۔ کاش وہ کم از کم 10,000 روپے واپس کر دیں۔‘

میں نے منگیش سے پوچھا کہ کیا وہ اب بھی ان دھوکے بازوں پر اعتبار کرتے ہیں۔

’مجھے واقعی نہیں پتا کہ مجھے اب کیا کرنا چاہیے۔ میں نے پورے ایک مہینے کی تنخواہ گنوا دی ہے اور بہار میں اپنے گھروالوں کو کوئی رقم نہیں بھیج سکا۔ میری بیوی بہت غصے میں ہے. اور مجھ سے بات نہیں کر رہی۔‘

وہ اس بات پر بھی برہم ہیں. کہ ’سندیپ سر‘ اب ان کی کال نہیں اٹھاتے۔

’جنھوں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ان کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ میں 500 روپے کے لیے پورا دن کمر توڑ کام کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں نے ایک بڑی غلطی کی ہے۔ لیکن جو انھوں نے میرے ساتھ کیا وہ بہت غلط ہے۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.