شدید گرمی سے برصغیر میں کروڑوں افراد کی ہلاکت کا خطرہ

اگر کرہ ارض کی گرمی، ماقبل صنعتی سطح، کے مقابلے میں 1.5ڈگری سیلسیئس زیادہ ہوجاتی ہے تو یہ انسانی صحت کے لیے ہلاکت خیز ہو گی

ایک نئی تحقیق کے مطابق 220 کروڑ افراد کو مہلک گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے. کہ انسانی جسم ایک حد تک ہی گرمی اور رطوبت برداشت کرسکتا ہے، جس کے بعد وہ لو یا ہارٹ اٹیک جیسے صحت کے مسائل سے دوچار ہو جاتا ہے۔

ایک نئی تحقیق میں پیش گوئی کی گئی ہے. کہ رواں صدی کے اختتام تک ماحولیاتی تبدیلی گلوبل وارمنگ کا باعث بن سکتی ہے. جو کہ بھارت اور پاکستان سمیت دنیا کے کچھ سب سے زیادہ آبادی والے علاقوں میں لوگوں کو دل کا دورہ پڑنے اور لو کے باعث موت کا سبب بن سکتی ہے۔

امریکہ کی پین یونیورسٹی کے پین اسٹیٹ کالج آف ہیلتھ اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ اور پرڈیو انسٹی ٹیوٹ فار سسٹین ایبل فیوچر نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے. کہ اگر کرہ ارض کی گرمی، ماقبل صنعتی سطح، کے مقابلے میں 1.5

انسانی جسم گرمی اور رطوبت کی ایک خاص سطح کو ہی برداشت کرسکتا ہے. جس کے بعد صحت کے حوالے سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، مثلاً لو لگنا اور دل کا دورہ پڑنا۔

دہلی اور ملتان کے لوگ متاثرین میں شامل

 تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت، ماقبل صنعتی سطح سے، 2ڈگری سیلسیس بڑھتا ہے تو پاکستان اور بھارت اور وادی سندھ کے 2.2ارب باشندے، مشرقی چین کے ایک ار ب لوگ اور سب صحارا افریقہ کے 800ملین افرادکو گھنٹوں تک سخت گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا. جو انسانی قوت برداشت سے باہر ہوگا۔

جو شہر اس سالانہ گرمی کا شکار ہوں گے ان میں دہلی، کولکاتہ، ملتان، نان جنگ اور ووہان شامل ہیں۔

ڈگری سیلسیئس زیادہ ہوجاتی ہے تو یہ انسانی صحت کے لیے ہلاکت خیز ہو گی۔

چو نکہ یہ علاقے کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک پرمشتمل ہیں اس لیے لوگوں کے پاس ایئر کنڈیشنز یا اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے دیگر موثر طریقوں تک رسائی بہت مشکل ہوگی۔

غریب ممالک سب سے زیادہ متاثر

اگر کرہ ارض کی گلوبل وارمنگ ماقبل صنعتی سطح سے 3ڈگری سیلسئس سے اوپر جاتی ہے تو گرمی کی بڑھتی ہوئی سطح، فلوریڈا سے نیویارک تک اور ہیوسٹن سے شکاگو تک، مشرقی سمندری حدود اور امریکہ کے وسطی علاقوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ تحقیقات میں پایا گیا. کہ جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا کو بھی شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لیکن ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ کم نقصان اٹھائیں گے۔ ترقی پذیر ملکوں میں سن رسیدہ اور بیمار افراد کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔

تحقیقاتی مقالے کے شریک مصنف میتھیو ہیوبر، جو پرڈیویونیورسٹی میں ارتھ، ایٹماسفیئرک اینڈ پلانیٹری سائنس کے پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ "گرمی کا بدترین دباو ان خطوں میں ہوگا جودولت مند نہیں ہیں. اور جہاں آنے والی دہائیوں میں آبادی میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، ” یہ ایک حقیقت ہے کہ غریب قومیں امیر ملکوں کے مقابلے. گرین ہاوس گیسوں کا اخراج. بہت کم کرتی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود اربوں غریب لوگ نقصان. اٹھائیں گے. اور بہت سے لوگ مرسکتے ہیں۔لیکن دولت مند قومیں بھی اس گرمی کا شکار ہوں گی کیونکہ آپس میں مربوط اس دنیا میں ہر ایک کو منفی اثرات کا کسی نہ کسی طرح صورت میں سامنا کرنا ہی پڑے گا۔”

محققین نے مشورہ دیاہے کہ درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے. گرین ہاوس گیسوں، بالخصوص فوصل ایندھن سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ، کو کم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تبدیلیاں نہیں کی گئیں. تو درمیانی آمدنی والے اور کم آمدنی والے ممالک سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.