’ڈی این اے سٹوریج‘: ڈیٹا کو ہزاروں سال تک کیسے محفوظ کیا جا سکتا ہے؟

ڈیٹا
اسٹوريج سرور

فرانس کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ میں انسانی جینوم کی سینیئر سائنسدان ڈینا زائلنسکی جب پیرس میں اپنے گھر سے ہم سے ویڈیو کال پر بات کر رہی تھیں تو اُنھوں نے ایک چھوٹی سی شیشی ہمیں کیمرے کے سامنے کر کے دکھائی۔

اس شیشی کے اندر کی چیز کو پہچاننا مشکل تھا مگر اُنھوں نے کہا کہ میں اس چیز کو غور سے دیکھوں تو مجھے شیشی کی تہہ میں ایک صاف اور باریک سی فلم نظر آئے گی جو ’ڈی این اے‘ ہے۔

مگر یہ ڈی این اے خاص ہے۔ یہ کسی انسانی جینوم کا کوڈ نہیں ہے اور نہ ہی کسی جانور یا وائرس کا کوڈ ہے۔ اس کے بجائے یہ ایک میوزیم کا ڈیجیٹل نمونہ ہے۔

ڈيٹا محفوظ

ڈینا کہتی ہیں کہ ’یہ آسانی سے شاید سینکڑوں سال تک باقی رہے گا۔‘

گذشتہ ایک دہائی میں انسانی جینوم کی ترتیب سمجھنے (سیکوئنسنگ)، ڈی این اے کی تیاری اور جینیاتی طریقہ علاج کی کھوج کے ساتھ ساتھ ڈی این اے کے اندر ڈیٹا سٹور کرنے کے حوالے سے بھی خاصی تحقیق ہوئی ہے۔

سائنسدانوں نے ڈی این اے کے اندر فلمیں۔ کتابیں اور یہاں تک کہ کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹمز تک انکوڈ کر رکھے ہیں۔ نیٹ فلکس نے تو اسے اپنی سنہ 2020 کی تھرلر سیریز ’بائیو ہیکرز‘ کی ایک قسط سٹور کرنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔

ڈی این اے میں محفوظ معلومات ہی انسان کو انسان بناتی ہیں۔ اور ایسا دیگر انواع میں بھی ہوتا ہے۔ مگر کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا سٹور کرنے کا ایک انتہائی چھوٹا، پائیدار اور طویل مدتی طریقہ ہے جو ہمیں فی الوقت دستیاب کئی ناقابلِ بھروسہ ڈیجیٹل سٹوریج میڈیمز کی جگہ لے سکتا ہے کیونکہ یہ باقاعدگی سے خراب ہو سکتے ہیں اور انھیں سٹور کرنے کے لیے کافی توانائی چاہیے ہوتی ہے۔

اسی دوران کئی ماہرین اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ کہ کیا ہم مؤثر انداز میں ہمیشہ کے لیے ڈیٹا کو محفوظ بنا سکتے ہیں؟ اس کا ایک طریقہ انتہائی مضبوط شیشے کے دانوں پر ڈیٹا کو کندہ کرنا ہے جو غاروں میں موجود نقاشی کی ایک جدید شکل ہو گی۔

مگر یہ ڈیٹا واقعتاً کتنے عرصے تک باقی رہ سکتا ہے۔ اور کیا ہم واقعی اس میں اتنی بڑی تعداد میں ڈیٹا محفوظ کر سکتے ہیں؟

ڈیجیٹلائزيشن کيا ہے؟

ایسے وقت میں جب ہماری دنیا پہلے سے زیادہ ڈیجیٹلائز ہوتی جا رہی ہے۔ ڈیٹا پر ہمارا انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ فلمیں، تصاویر، ویب سائٹس، کاروباری دستاویزات، اہم سکیورٹی ریکارڈز، غرض یہ کہ ہمارے زیرِ استعمال ہر چیز ڈیجیٹلائزڈ ہے اور ہم پہلے سے زیادہ اس پر انحصار کر رہے ہیں۔

ہمارا پیدا کردہ زیادہ تر ڈیٹا 0 اور 1 کی شکل میں ہارڈ ڈرائیوز جیسی مقناطیسی ٹیپس میں محفوظ ہے۔ مگر یہ کوئی اتنا مثالی طریقہ نہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ ڈی میگنیٹائزیشن یعنی اپنی مقناطیسی قوت کھو دینا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

مقناطیس وقت کے ساتھ ساتھ اپنی قوت کھو دیتے ہیں۔ اس لیے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر چند برسوں بعد ہارڈ ڈرائیوز دوبارہ ری رائیٹ کرنا اہم ہے۔ زائلنسکی کہتی ہیں کہ ’یہ اوسطاً 10 سے 20 برسوں تک چل سکتا ہے۔ اور اگر آپ کی قسمت اچھی ہو اور حالات سازگار ہوں تو 50 برس تک بھی باقی رہ سکتا ہے۔‘

دیٹا تحفظ

ڈیٹا سٹور کرنے کے لیے بہت بڑے ڈیٹا سینٹرز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جنھیں خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بے تحاشہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ توانائی کے بحران کی شکار دنیا کے لیے کوئی اچھی بات نہیں۔ اس مسئلے کو دنیا بھر میں نہایت سنگین تصور کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ امریکی حکومت کا سنہ 2019 میں لانچ کیا گیا مالیکیولر انفارمیشن سٹوریج پروگرام بھی آج کے بڑے ڈیٹا سٹوریج مراکز کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع ڈھونڈنے میں کوشاں ہے۔

ہارڈویئر کی کمی

ڈینا کہتی ہیں کہ ’اصل میں ہمارے پاس ہارڈویئر ہی ختم ہو رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے۔ کہ انڈسٹری اتنی جلدی اتنی بڑی تعداد میں ہارڈ ڈسکس اور سرورز نہیں بنا پا رہی کہ اس ڈیٹا کو سٹور کیا جائے۔‘

مگر کی ہمیں واقعی یہ سارا ڈیٹا رکھنے اور اسے اتنے طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے؟

لوگ کئی وجوہات کی بنا پر طویل مدت کے لیے ڈیٹا سٹور کرنا چاہتے ہیں۔ ایک تو سائنس ہے۔ محققین اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں ڈیٹا پیدا کر رہے ہیں اور ان کے پاس جتنا زیادہ ڈیٹا ہو اتنا اچھا ہے۔

مثال کے طور پر، لاس الاموس نیشنل لیبارٹری میں ڈی این اے سٹوریج پر کام کرنے والے کمپیوٹر سائنسدان لاچیزار لنکوو کہتے ہیں۔ میں ریڈیو دوربینیں اور پارٹیکل ایکسلریٹر جیسے لارج ہیڈرون کولائیڈر (LHC)، ڈیٹا کی بڑی بڑی مقدار تیار کرتے ہیں، اور سائنس دان چاہتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں محفوظ رہیں۔ صرف لارج ہیڈرون کولائیڈر میں ہر سال 90 پیٹا بائٹس (90 ملین گیگا بائٹس) ڈیٹا تیار ہوتا ہے۔

میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں حیاتیاتی انجینئرنگ کے پروفیسر مارک باتھ نے بائیو مالیکیولز کو وسیع پیمانے پر قابل رسائی اور کارآمد بنانے کے لیے سٹارٹ اپ کیشے ڈی این اے کی مشترکہ بنیاد رکھی۔ باتھ کا کہنا ہے کہ انسانیت کو درپیش عالمی خطرات ہمیں انسانی ساختہ معلومات، جیسے آرٹ اور سائنس، اور کرہ ارض پر موجود تمام جانداروں کے ڈی این اے دونوں کو محفوظ رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔

تبصره

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.